خوف محسوس کرتی ہوں
میں نے ایک خاتون کو دیکھا تھا۔ وہ ہماری دور کی رشتہ دار تھیں۔ جب ہم ان کے گھر جاتے تو دیکھتے کہ وہ اکیلی بیٹھی باتیں کیا کرتیں۔ کوئی توجہ نہ دیتا۔ کھانے کے وقت ان کے سامنے کھانا رکھ دیا جاتا۔ کبھی وہ کھا لیتیں اور کبھی کھانا یوں ہی واپس آجاتا۔ کوئی ان کے بال بنا دیتا، کپڑے بدل دیئے جاتے تو صاف ستھری اور اچھی نظر آتیں مگر خود وہ اپنا حلیہ و ہی بنائے رکھتیں۔ چہرے پر وحشت ہوتی۔ اب میں سوچتی ہوں کہ وہ تو نفسیاتی مریضہ تھیں ورنہ تو سب انہیں کسی سائے کے زیر اثر سمجھتے تھے۔ ماں باپ حیات تھے تو وہ ایک ہی گھر میں رہتی تھیں۔ پھر دربدر ہو گئیں اور اب ان کا انتقال لاوارثوں کے ایک ادارے میں ہوا ہے۔ کسی نے کچھ محسوس نہ کیا مگر میں ان کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوں۔ خود کو ان کی جگہ رکھ کر خوف محسوس کرتی ہوں کہ اگر میں بھی پاگل ہو گئی تو میرا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔ (شمیم، ڈی جی خان)
جواب: جس خاتون کا آپ نے ذکر کیا ، وہ ذہنی مریضہ تھی۔ ایسے لوگوں کو پاگل نہیں کہنا چاہیے کیونکہ جس طرح جسم بیمار ہو جاتا ہے اسی طرح ذہن بھی بیمار ہو سکتا ہے۔ خط میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شدید ذہنی مرض کا شکار تھیں۔ جس میں انسان کو اپنے حلیے کا بھی ہوش نہیں ہوتا، نہ ہی کھانے پینے کی پرواہ ہوتی ہے۔ بہر حال اب وہ دنیا میں نہیں تو ان کے حوالے سے کسی فکر یا پریشانی کی ضرورت نہیں۔ آپ خوف کا شکار ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ جب وہ کسی انسان کو کسی بیماری کا شکار دیکھ لیتے ہیں تو اس بیماری کو اپنے اندر محسوس کرکے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس مرض کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ جس طرح آپ سوچ رہی ہیں۔ کوئی خواہ مخواہ یوں ہی اچانک ہوش وحواس نہیں کھو بیٹھتا۔ آپ کو بھی کچھ نہیں ہو گا اور نہ ہی ابھی کوئی بات ہے، آپ بالکل صحت منداور ذہنی طور پر ٹھیک ہیں۔ طبیعت میں حساسیت بڑھی ہوئی ہے۔ اپنے علاوہ ماحول میں دلچسپی لیں۔ زندگی کی حقیقت کو قریب سے دیکھنا اچھی بات ہے لیکن ہر بات کو اپنے اندر تو محسوس نہیں کیا جا سکتا۔
مجرمانہ تغافل
میرے بچے مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ بیٹی نے میٹرک کر لیا ہے اور بیٹا یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔ یہ دونوں بچے اب اپنی خالہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ انہیں مجھ سے نفرت ہے۔ میں ملنے گیا تو اہل خانہ نے عزت دی، گھر میں بٹھایا مگر بچے سامنے نہ آئے، نہ بات کی۔ فون کرتا ہوں تو اٹھاتے نہیں۔ میری بیوی کے انتقال کو چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ بہت صبر والی عورت تھی۔ عمر کوئی پچپن سال ہو گی۔ تین سال سے کینسر تھا۔ علاج ہوتا رہا مگر طبیعت میں بہتری نہ آئی۔ میرا مزاج شروع ہی سے تیز تھا۔ میں بہت بولتا تھا۔ غصہ بھی زیادہ کرتا رہا۔ بچے یوں بھی مجھ سے بات کم کرتے تھے۔ چھوٹے تھے تو ڈرتے تھے۔ میں سمجھتا کہ یہ اچھی بات ہے، باپ گھر میں آئے تو بچوں کو خاموش ہو جانا چاہیے اور ادب سے بیٹھ جانا چاہیے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا ہو۔ میں نے ہمیشہ خود اکیلے ہی کھانا کھایا۔ بچے ماں کے ساتھ کھاتے تھے۔ گھومنا پھرنا، سکول کے معاملات سب ماں کے ذمے تھے۔ وہ خود بھی سکول ٹیچر تھیں۔ بعض اوقات انہیں بچوں کی وجہ سے اپنے سکول سے چھٹی لینی پڑتی مگر میں سمجھتا کہ یہ انہی کا کام ہے۔ میں اب اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو گیا ہوں۔ عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ میں نے مجرمانہ تغافل کیا۔ (ایم یوسف، راولپنڈی)
جواب: سخت مزاج لوگ اپنی زندگی کے آخری حصے میں عموماً تنہا ہی رہ جاتے ہیں۔جب تک آپکی بیوی اس دنیا میں رہیں، بچے ان کی وجہ سے ہی آپ کو برداشت کرتے رہے۔ مگر اب جبکہ ان کی ماں دنیا میں نہیں، وہ سخت مزاج باپ کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں۔ بچوں کو جو ہم دیتے ہیں، وہی ہمیں واپس ملتا ہے۔ آپ نے انہیں خود سے دور رکھا، محبت تو کی مگر اظہار نہیں کیا۔ وہ آپ کے دل میں نرم گوشے کو محسوس نہ کر سکے بلکہ اپنی ماں کی محبت کی تلاش میں خالہ کے ساتھ رہنے لگے۔ آپ بچوں سے ملنے کی کوشش جاری رکھیں۔ مختلف مواقع پر انہیں انعامات اور تحائف بھی دیں۔ ان کی خالہ سے کہیں کہ وہ اس معاملے میں آپ کی مدد کریں۔ جو کچھ ہو چکا اس پر آپ کو افسوس ہے۔ خالہ کے سمجھانے کا بھی بچوں پر اچھا اثر ہو گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہیں بھی مشکل ہو گی کیونکہ وہ چھوٹے اور ناسمجھ نہیں لیکن جذبے سچے ہوں تو ضرور اثر ہوتا ہے۔ بچوں سے تعلقات بحال ہونے سے بھی اداسی میں کمی آئے گی۔
ویران زندگی
میری پیدائش پر والد دبئی سے آرہے تھے کہ انہیں دل کا دورہ پڑ گیااور وہ یہ دنیا چھوڑ گئے۔ میں ابھی چند گھنٹے کی ہی تھی کہ میری ماں بیوہ ہو گئیں۔ اس وقت ان کی عمر چوبیس سال تھی کہ زندگی ویران ہو گئی۔ میں دس سال کی ہوئی تو نانی کا انتقال ہو گیا۔ اب امی تنہا رہ گئیں۔ ماموں اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ ہم لوگوں کو اپنے پاس نہ رکھ سکے۔ میری ماں کو مجبوراً ایک ضعیف آدمی سے نکاح کرنا پڑا۔ انہوں نے ہر ممکن خوش رکھنے کی کوشش کی مگر امی تو جیسے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو گئی تھیں اور آج بھی ویسے ہی مایوس ہیں۔ میری عمر 25سال ہو چکی ہے۔ وہ پرانے وقت کو یاد کرکے روتی رہتی ہیں۔ میرے سوتیلے والد بھی ان سے چڑنے لگے ہیں۔ میں نے ایک روز انہیں امی سے یہ کہتے سنا کہ تم میرے ساتھ خوش نہیں تو علیحدہ ہو جاﺅ۔ مگر امی نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ آئندہ ماہ میری شادی ہے۔ مایوسی کے باوجود امی نے میرے جہیز میں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔ میرے ہونے والے شوہر امی کی دوست کے بیٹے ہیں۔ (شیبا صدیقی، کوئٹہ)
جواب: کچھ حادثات اچانک ہو جاتے ہیں جن کی تکلیف انسان عمر بھر یاد رکھتا ہے اور ہمیشہ کیلئے اس کی شخصیت میں تبدیلی آجاتی ہے۔ ایسا ہی آپ کی والدہ کے ساتھ ہوا۔ بچی کی پیدائش پر خوشی کا موقع تھا اور انہیں ایسا بڑا غم ملا جس کی اذیت سے وہی واقف ہیں۔ ایسے حادثات کے بعد نفسیاتی مرض ”ڈپریشن“ ہو جانا عام بات ہے لیکن ایسے شدید مایوس لوگوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا جاتا ۔ جب کسی کا غم وقت گزرنے کے بعد بھی کم نہ ہو بلکہ اس قدر بڑھ جائے کہ انسان خوشیوں کو بھی محسوس نہ کر سکے تو اسے نفسیاتی مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبیعت میں زیادہ خرابی ہو تو دوا بھی لی جا سکتی ہے لیکن اس بات کا فیصلہ ماہر امراض دماغ ہی کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ کے والد کا غم والدہ کیلئے ناقابل فراموش ہے لیکن زندگی کو پرسکون اور خوشگوار انداز میں گزارنا بھی ان کا حق ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 864
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں